ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر کسی کو اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ جن کی بات پر کبھی اعتراض نہیں کیا جا سکتا، جن کے کلام کو کبھی ٹھکرایا نہیں جا سکتا، وہ صرف اور صرف رب العالمین اور اس کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ان کے فرامین کے سامنے بلا چوں چرا سر خم تسلیم کرنا ہے، ارشاد باری اور فرمان نبوی کے سوا جس کسی کا قول ہو یا فرمان ہو اس پر دائرہ ادب میں اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے، اور کتاب و سنت سے مخالفت کی صورت میں ٹھکرایا بھی جا سکتا ہے، یہ اسلام کے اصول اور مسلمات میں سے ہے، یہی وہ نکتہ جسے نہ سمجھنے کی صورت میں علماء و مشایخ کو عصمت کا درجہ لا شعوری طور پر دیا جاتا ہے، بلکہ بسااوقات نبیوں سا معاملہ کیا جاتاہے، اس لئے امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم میں سے کسی کی کوئی بات قبول کی جا سکتی ہے، اورکوئی بات رد کی جا سکتی ہے، سوائے رب العالمین کے دوست محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ ان کی ہر بات قبول کی جائے گی، ان کی بات کو رد کرنے والا مولائے کائنات کی نگاہ میں مردود ہو جاتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ پندرہویں شعبان کی شب میں عبادت کے جواز کے سلسلے میں زیر نظر آیا جو بعض احباب کے تردد کا سبب بنا، لیکن چونکہ یہ فتوی براہ راست سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عمل صحابہ کے خلاف تھا اس لئے احقاق حق اور ابطال باطل کی خاطر اس پر مختصر تعلیق کی حاجت سمجھی گئی۔
فاقول مستعینا بالله۔
مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ نے شعبان کی فضیلت میں فرمایا: "شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں”.
آئیے ہم محدثین کے اقوال کی روشنی میں شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت میں وارد احادیث کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
ابن العربی المالکی صاحب عارضۃ الاحوذی فرماتے ہیں کہ:” شعبان کی پندرہویں شب کے کوئی ایسی حدیث نہیں جو قابل سماعت ہو چہ جائیکہ کہ ہم اسے استدلال کے قابل سمجھیں”، (عارضۃ الاحوذی 2/201).
حافظ بن دحیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” پندرہویں شعبان کی رات کی عبادت کے سلسلے میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں” (الباعث علی انکار البدع والحوادث، ص 127).
ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت میں متعدد حدیث آئی ہے، جس کی تصحیح وتضعیف میں اختلاف ہے، چنانچہ اکثر علماء نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے. (لطائف المعارف 136).
مذکورہ بالا اقوال کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ محدثیں کی اکثریت پندرہویں شعبان کی فضیلت میں وارد تمام احادیث کے ضعف کے قائل ہیں۔
خود مفتی صاحب علیہ الرحمہ اس رات کی فضیلت میں وارد احادیث کے ضعف کے قائل ہیں، لیکن متعدد طرق سے آنے کی وجہ سے قابل عمل ہونے کا فتوی بھی دیتے ہیں جیسا کہ مفتی صاحب نے فرمایا: ” لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے”.
مفتی صاحب کا یہ قول بہت مختصر ہونے کی وجہ کر اختصار مخل کا شکار گیا، کسی بھی ضعیف حدیث کی کمزوری دوسری احادیث کی تائید سے اس وقت دور ہوتی ہے جب تائید میں آنے والی حدیث اس سے زیادہ ضعیف نہ ہو، نہ کہ مطلقا کثرت طرق کا اعتبار ہوگا۔
مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ: "لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے”.
بے بنیاد کہنا اس وقت غلط ہوتا جب ان دس صحابہ کرام یا ان میں سے کسی ایک تک حدیث کی سند صحیح ہوتی، لیکن جس چیز کا ثبوت ہی موجود نہ تو وہ بے بنیاد یعنی بے دلیل ہی کہلائے گی۔
جیسا کہ اس حدیث کے ضعیف ہونے کے سلسلے میں میں نے متعدد علماء کے اقوال پیش کئے۔
مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ: "امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے….. ".
مفتی صاحب ایسی بات صرف دو صورتوں میں ہی کر سکتے ہیں:
1- سبقت لسانی کی وجہ سے۔
2- یا اہل علم کے اقوال پر قلت اطلاع کے سبب۔
کیوں کہ ابن رجب الحنبلی فرماتے ہیں کہ: "قيام ليلة النصف من شعبان لم يثبت فيه شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أصحابه”،
شعبان کی پندرہویں شب کے قیام کے سلسلے میں نہ نبی سے کچھ ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے۔
یاد رہے کہ ابن رجب الحنبلی اس رات میں انفرادی عبادت کے قائل ہونے کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ صحابی سے کچھ بھی ثابت نہیں۔
پتہ یہ چلا کہ کسی ایک بھی صحابیِ رسول سے اس رات میں عبادت کا اہتمام ثابت نہیں، چاہے وہ اجتماعی عبادت ہو یا انفرادی۔
رہی بات عصر تابعین کی تو اس زمانے میں چند تابعین ہی اس کا اہتمام کرتے تھے جن کی تعداد 5 یا ان سے بھی کم تھی، جبکہ اہل حجاز اور مدینہ والے سب کے سب اس رات میں کسی بھی قسم کی عبادت کا انکار کرتے تھے اور اسے بدعت گردانتے تھے۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ جب چند تابعین سے اس رات میں عبادت ثابت ہے تو وہ ہمارے لئے حجت ہوئی، تو معلوم ہونا چاہیے کہ تابعین کے اقوال مطلقا حجت نہیں ہوتے، بلکہ صحابہ کے اقوال وافعال مطلقا حجت نہیں ہوتے تو پھر تابعین اور ان کے بعد کے افراد کے اقوال و افعال کیسے حجت ودلیل بن سکتے ہیں؟
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بات نبی کی حدیث سے ثابت ہو تو وہ سر آنکھوں پر ہے، اور اگر کوئی بات صحابی سے ثابت ہو تو ہمارے مقابلے میں وہ بھی سر آنکھوں پر ہے، البتہ اگر کسی مسئلہ میں کسی تابعی کا قول و فعل ہو تو وہ قابل حجت نہیں۔
اور شعبان کی پندرہویں شب کی انفرادی یا اجتماعی عبادت کے سلسلے میں نہ کوئی صحیح حدیث موجود ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کوئی عمل، اس رات کی عبادت بس چند تابعین سے ثابت ہے، جب کہ اکثریت اس کی بدعیت کے قائل ہیں، تو پھر ان کا عمل قابل حجت کیسے ہو سکتا ہے؟ اور یہی چیز امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول سے ثابت ہوتی ہے۔
چناں چہ اس کو دور صحابہ اور عصر تابعین میں معمول بہ بتانا فحش غلطی ہے۔
مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ: "…….بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے……. ".
مفتی صاحب نے اپنے قول کے سباق و سیاق میں صلاۃ الفیہ اور دیگر نمازیں جو ۔خصوص طریقہ سے رائج ہیں انہیں بے بنیاد بتایا ہے، البتہ اس رات میں عام نفلی عبادت کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔
قارئین کرام: شریعت میں عبادت کی بنیاد کتاب وسنت کی دلیل پر ہوتی ہے، کسی بھی عبادت کیلئے ضروری ہے کہ وہ یا تو قرآن مجید سے ثابت ہو یا پھر حدیث رسول سے، کیوں کہ عبادت کو مشروع قرار دینے کا حق صرف شارع کو ہوتا ہے کسی اور کو نہیں، کتاب وسنت سے دلیل نہ ہونے کی صورت میں وہ عبادت غیر مشروع ٹھرے گی۔
چنانچہ ابوشامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "یہ بات بالکل بھی درست نہیں کہ چند عبادات کو بعض اوقات کے ساتھ خاص کیا جائے جبکہ شریعت سے اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہ ملتی ہو”.
کچھ اعمال ایسے ہیں جن کی اجمالی اور تفصیلی دلائل موجود ہیں، جیسے نماز، سنن ورواتب وغیرہ۔
کچھ اعمال ایسے جن پر نہ اجمالی دلیل موجود ہے اور نہ ہی تفصیلی، یہ عین بدعت ہے۔
کچھ اعمال ایسے ہیں جن کی اجمالی دلیلیں تو موجود ہیں لیکن تفصیلا مذکور نہیں جیسے عام نوافل۔
پہلی اور دوسری صورت متفق علیہ ہے، لیکن تیسری صورت کی تطبیق میں اختلاف ہے، چنانچہ جو لوگ شعبان کی پندرہویں شب میں انفرادی یا اجتماعی عبادت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس رات میں جو عبادت کر رہے ہیں وہ عام نوافل میں داخل ہے، اور خاص کر اس رات کی فضیلت ہے اس لئے عمومی دلائل کی بنیاد پر عمل کرنا روا ہے، اسے بدعت نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن یہ صحیح نہیں کیوں کہ عمومی ادلہ کے مطابق عمل کا دعوی کرنے والے خود اپنے عمل سے اس کی تخصیص کردیتے ہیں، وہ اس طرح کہ عام نوافل کا ثبوت عام راتوں میں ہے، سال کے کسی بھی مہینے کی کسی بھی رات کو بلا تخصیص عبادت کیا جا سکتا ہے، لیکن عام نوافل کی احادیث کو ایک خاص رات میں فٹ کیا جائے اور کہا جائے ہم عمومی دلیل پر عمل کرتے ہوئے اس رات میں نماز پڑھ رہے ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
محترم قارئین: آپ کی نظروں سے وہ تین صحابی والی حدیث ضرور گذری ہوگی جو امہات المؤمنین کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں پوچھنے آئے تھے، ان میں سے ایک نے کہا تھا کے میں رات بھر قیام کروں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو خلاف سنت قرار دیا اور فرمایا کہ: "من رغب عن سنتی فلیس منی”، جو میری سنت سے بے رغبتی کرے اعراض کرے وہ مجھ میں سے نہیں۔
اس حدیث سے کئی باتیں پتہ چلتی ہیں۔
ا- اس صحابی نے کسی نئے عمل کے کرنے کا ارادہ نہیں کیا بلکہ جو عمل مشروع تھا اسی کو طول دینے کی بات کہی۔
ب- اس صحابی نے کسی رات یا دن کو عبادت کے لئے خاص نہیں کیا، بلکہ عمومی عبادت کی بات کی۔
اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اعمال کو اعمال شمار ہی نہیں کیا بلکہ کہا جو میری سنت سے اعراض کرےگا۔۔۔۔۔
اب ایک صحابی جو نبی سے ثابت شدہ عمل کسی ایک رات کے ساتھ خاص نہ کریں بلکہ اسے ویسے ہی کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے بس پوری رات بنا سوئے قیام کرنے بات کریں تو نبی سرے سے ان کے عمل کو سنت سے خارج کر رہے ہیں، تو پھر وہ شخص جو ایسا عمل ایسی رات میں کرے جس عمل کا ثبوت اس رات میں نبی سے نہیں ملتا، نیز اس عمل کو وہ اس رات کے ساتھ خاص بھی کرے تو ایسے شخص کے عمل کے بارے میں کیا رائے ہونی چاہیئے؟
سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے مسجد نبوی میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ فجر کی نماز سے قبل فجر کی سنت کے علاوہ اور بھی نمازیں پڑھ رہا ہے، تو اس کو سعید بن المسیب نے منع فرمایا، اس پر اس شخص نے کہا کہ شیخ کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دےگا؟ تو سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہیں، لیکن تمہیں سنت کی خلاف ورزی پر عذاب ملےگا۔
قارئین کرام ذرا اس اثر میں غور فرمائیں کہ عمومی نوافل پڑھنا کبھی بھی درست ہے سوائے اوقات منہیہ کے، لیکن اس کے باوجود سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے اسے منع فرمایا، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان صرف دورکعت پڑھنا ثابت ہے، اس سے زیادہ نبی نے نہیں پڑھا، اگر کوئی نبی کی عام نوافل والی حدیث پر اس وقت عمل کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔
اذان اور اقامت کے درمیان کا وقت فضیلت والا ہوتا ہے، نیز اس درمیان سنن رواتب مشروع ہیں لیکن اگر کوئی عام نوافل پڑھنا چاہے تو درست نہیں، پھر ایسی رات جس کی فضیلت کے ثبوت میں اختلاف ہو، نیز تخصیص کے ساتھ اس رات کی عبادت کے سلسلے میں نہ نبی کا کوئی قول موجود ہو اور نہ کوئی عمل، اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کوئی اثر تو ایسی رات میں انفرادی عبادت کیسے جائز ہوجائے گی چہ جائیکہ کہ ہم اجتماعی عبادت کی بات کریں۔
مفتی صاحب نے اپنے اس فتوے میں شعبان کی پندرہویں شب کو قبرستان جانا مشروع قرار دیا ہے، اور ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ زندگی میں ایک شب برات میں قبرستان چلا گیا تو وہی کافی ہے.
مفتی صاحب نے ترمذی کی جس حدیث کی بنیاد پر اس عمل کو مشروع قرار دیا ہے خود امام ترمذی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، اور اگر مان بھی لیا جائے کہ اس حدیث سے پندرہویں شعبان کو قبرستان جانے کی فضیلت کا ثبوت ملتا ہے، تو پھر یہ کیسی فضیلت ہے کہ نبی نے اپنی امت میں سے کسی کو نہیں بتایا، بلکہ بستر سے اٹھ کر اکیلے بقیع گئے اور ان کیلئے دعا ئیں کرکے واپس چلے آئے؟؟
اگر اس رات میں عبادت کی ذرا بھی فضیلت ہوتی تو نبی اپنے صحابہ کرام کو بھی عمل کرنے کی ترغیب دیتے، بلکہ ازواج مطہرات کو بھی جگاتے جیسا کہ لیلۃ القدر میں کیا کرتے تھے۔
اللہ رب العالمین ہم سبھوں کو منہج صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔