شریعت اسلامیہ نے ایک مسلمان کی زندگی کے ہر معاملہ کو کتاب وسنت سے جوڑا ہے، وہ کوئی بھی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا، کیوں کہ کلمہ پڑھنے کے بعد وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کا غلام ہو گیا، اب وہ اپنی عام زندگی میں بھی اپنی مرضی کا مالک نہیں رہا، تو پھر عقائد وعبادات میں کیسے اپنی مرضی چلا سکتا ہے، ہر جگہ شریعت کی لگام ہے۔
مان لیجئے کہ دنیا کا سب سے زیادہ عقل مند، پڑھا لکھا، ذہین وفطین، عبادت گذار، زہد وورع کا پیکر، تقوی و پرہیزگاری کا نمونہ، علم شریعت کا سب سے زیادہ ماہر اگر کسی عمل کو دین کے نام پر بہت اچھا سمجھ کر انجام دیتا ہو جس کا ذکر کتاب و سنت اور ادلہ شرعیہ سے نہیں ملتا تو کیا وہ عمل قابل حجت ہو سکتا ہے ؟؟؟
کبھی نہیں ہو سکتا، کیوں کہ جس شریعت میں ہنسنے اور رونے کا طریقہ سکھایا گیا ہو، اس شریعت میں اس عمل کی طرف رہنمائی کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو امت کے لئے خیر و بھلائی کا سبب ہو، اس کا مطلب کوئی بھی عمل لوگوں کی نگاہ میں کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اگر اس کی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں تو وہ دنیا کا سب سے بدترین اور گھٹیا ترین عمل ہے۔ کیوں کہ اگر اچھا ہوتا تو تاجدار مدینہ ضرور اس عمل کی طرف رہنمائی فرماتے۔
اس بات کو دوسری طرح سمجھیں۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں قوانین اور ضابطے پائے جاتے ہیں جس کی خلاف ورزی پر سزا سے گذرنا پڑتا ہے، اگر کوئی کسی ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرے اور عدالت میں پیش کئے جانے پر کہے کہ میرا مقصد اچھا تھا حسن نیت سے میں نے یہ کام کیا تھا، تو کیا اس کی یہ دلیلیں قانون کے خلاف کئے گئے عمل کو درست قرار دے گی، یا عدلیہ اس کو کلین چٹ دے گی؟ عدلیہ بس ایک ہی بات کہے گی کہ آپ کا اچھا مقصد آپ کو مبارک ہو آپ کا فعل قانونا جرم ہے۔
اسی طرح اسلام کے قوانین اور ضوابط قرآن و حدیث میں موجود ہے، اگر کوئی ایسا عمل کرے جو شریعت کے ضابطے خلاف ہو وہ غلط ہے چاہے اسے کتنے ہی اخلاص وللہیت سے کیوں نہ انجام دیا گیا ہو۔
پندرہویں شعبان کی رات کی عبادت کو جب ہم اس میزان پر تولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جاں نثار صحابہ نے اس عمل کو انجام دیا ہی نہیں، اب بھلا جس عمل کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اچھا نہ سمجھیں وہ عمل اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟ پوری دنیا مل کر بھی اس عمل کو اچھا بولے پھر بھی اچھا نہیں ہو سکتا، ہاں اگر کوئی رحمت للعالمین سے بڑا ہو اور وہ اس عمل کو اچھا کہے تو کچھ بات بنے، لیکن اس روئے زمین پر آج تک انبیاء کرام کے علاوہ کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے پاؤں کے دھول کی برابری کرسکے تو نبی سے برابری کی بات تو بہت دور کی ہے، پھر ایسے آدمی کا قول حجت کیسے ہو سکتا ہے؟
ایک جلیل القدر تابعی زید بن اسلم رحمہ اللہ جن کا شمار شہر مدینہ کے فقیہوں میں ہوتا تھا فرماتے ہیں کہ” میں نے اپنے زمانے کے مشایخ اور فقہاء کو پندرہویں شعبان کی رات کوئی اضافی عبادت کرتے نہیں دیکھا، بلکہ وہ لوگ پندرہویں شعبان کی رات کو دوسری رات پر کچھ بھی فضیلت نہیں دیتے تھے”-(1).
امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام بخاری، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، اور دیگر ائمہ ومحدثین رحمہم اللہ بھی پند رہویں شعبان کی رات کی عبادت کے قائل نہیں.
ابو شامہ المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شب برات کی رات میں عبادت کی بدعت کا آغاز سن 448 ہجری میں ہوا، ہوا یوں کہ ابن ابی الحمراء نامی ایک شخص نابلس شہر سے آیا، کافی خوبصورت آواز میں تلاوت کرتا تھا، چنانچہ پندرہ شعبان کی رات وہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کیلئے کھڑا ہوا اور اس کے پیچھے لوگ آکر کھڑے ہوتے گئے یہاں تک کہ ایک بڑی جماعت ہوگئی(2).
حافظ بن دحیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” پندرہویں شعبان کی رات کی عبادت کے سلسلے میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں، اس لئے اللہ کے بندو خبردار رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی جھوٹا خیر و بھلائی کے نام پر حدیث گھڑ کے پیش کردے، کیوں کسی بھی عمل کے جائز اور مشروع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہو، اور جب کسی حدیث کا ضعیف یا موضوع ہونا ثابت ہو گیا تو اس سے کسی بھی عمل کی مشروعیت ثابت نہیں ہو سکتی، نیز ضعیف وموضوع حدیث کو کسی عبادت یا عمل کی دلیل بنانے والا در اصل شیطان کا خدمت گار ہے”(3).
البتہ شام کے کچھ تابعین سے ثابت ہے کہ وہ اس رات کے تعظیم کرتے اور اس میں عبادت کرتے تھے، لیکن تابعی کا عمل ہمارے لئےحجت نہیں بن سکتا جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں "جب نبی کی بات آجائے تو وہ سر آنکھوں پر ہے، یعنی نبی کی بات کے سامنے کسی کی بات قابل حجت نہیں، اور اگر صحابہ کے اقوال کسی مسئلہ میں مل جائیں تو ہم ان میں سے اس قول کو لیں گے جو دلیل کے موافق ہو، اور اگر کسی تابعی کا قول آجائے تو وہ بھی رجال ہیں اور ہم بھی رجال ہیں، مطلب ان کی بات مستقل حجت نہیں ہو سکتی۔
کسی مسئلہ میں اگر اختلاف ہو جائے تو شریعت میں اس اختلاف کو حل کرنے کا نہایت آسان طریقہ بتایا گیا ہے چنانچہ اللہ رب العالمین نے فرمایا: "فَإِن تَنازَعتُم في شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الآخِرِ ذلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا”. [النساء: ٥٩]
آیت کا مفہوم: اگر کسی مسئلہ میں تمہارے درمیان اختلاف ہو جائے تو اس کا حل کتاب اللہ اور سنت رسول میں تلاش کرو، اور اپنے اختلافی مسائل میں کتاب و سنت کو حاکم مان اس کے مطابق وہی عمل کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نیز اختلافی مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا پوری امت کیلئے بہتر اور فائدہ مند ہے۔
شعبان کی پندرہویں شب میں عبادت کے سلسلے ميں جو اختلاف ہے اگر ہم اس کا حل قرآن کے مذکورہ حکم کے مطابق تلاش کریں گے تو نہایت آسان اور سادہ جواب ملےگا کہ اس عمل کی صحیح دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں، اور یہ عبادت نہ نبی کے زمانے میں پائی گئی اور نہ ہی صحابہ کے زمانے میں۔
اس لئے ہم دین کو اس طریقے سے سمجھنے کی کوشش کریں جس طرح اللہ نے ہمیں سمجھنے کا حکم دیا اور جیسے صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھا، اس موقع سے امام مالک رحمہ اللہ کی ایک بات ذہن نشیں کرلیں انہوں فرمایا کہ” صحابہ کے زمانے میں جو عمل دین کا حصہ نہیں تھا وہ آج بھی دین کا حصہ نہیں بن سکتا”۔
چنانچہ کوئی بھی عمل کرنے سے قبل اس بات کی تحقیق ضرور کرلیں کہ کیا اس عمل پر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر لگی ہے؟، اگر نہیں تو اس عمل کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر اس سے دور رہیں، کیوں کہ جو شخص ایسا عمل کرتا ہے جس کی دلیل کتاب وسنت میں نہیں یا دین کے نام پر نت نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے، یا ایجاد بندہ رسومات پر عمل کرتا ہے کل بروز قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے حوض سے دھتکار کر بھگا دیں گے۔
قیامت کے دن کی ذلت و رسوائی سے بچنے کی کوشش کریں، کیوں کہ اگر نبی دھتکار کر بھگادیں گے تو کوئی بھی پرسان حال نہیں ہوگا۔
اللہ ہم سبھوں کو بدعات وضلالت کی پگڈنڈیوں سے محفوظ رکھے اور صراط مستقیم پر قائم رکھے۔
…………………………………………………….
(1) البدع لابن وضاح (108/92/2).
(2) الباعث على إنكار البدع والحوادث (35/1).
(3) الباعث على إنكار البدع والحوادث (36/1).