السعى الكافي في بيان أن الأمراض مثل كورونا لا تتعدى إلا بإذن الله الشافي.
(کیا کورونا جیسی بیماریاں بنفسہ متعدی ہوتی ہیں؟)
قارئین کرام!
اللہ تبارک وتعالی نے اس دنیا میں اسباب کا ایک نظام قائم کر رکھا ہے. اور جسطرح کوئی بھی چیز بغیر کسی سبب کے وقوع پذیر نہیں ہوتی ٹھیک اسی طرح کوئی بھی چیز کسی دوسری چیز کیلئے خود سے سبب بھی نہیں بن سکتی. بلکہ اسباب بنانے والا بھی اللہ رب العالمین ہی ہے اور یہ اسباب اسی کی مرضی سے کارگر ہوتے ہیں.چنانچہ اگر وہ نہ چاہے تو تمام اسباب کی موجودگی بھی بےکار ثابت ہوسکتی ہے.
اس کو ایک مثال سے سمجھیں.
آگ جلانے کا سبب ہے. لیکن آگ بذات خود جلانے کا سبب نہیں بن گئی بلکہ چونکہ اللہ نے اس کو جلانے کا سبب بنایا ہے اس لئے وہ جلا سکتی ہے.
یعنی آگ سبب ہے (جلانے کا) اور اللہ اس کو سبب بنانے والا .
لہذا اگر سبب بنانے والا یعنی اللہ چاہے کہ آگ کی موجودگی بھی بے کار ثابت ہو اور آگ کسی کو نہ جلا سکے تو آگ بذات خود کسی کو نہیں جلا سکتی.
جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ معروف ہے.اللہ نے نہیں چاہا تو سبب کی موجودگی بھی بیکار ثابت ہوئی اور آپ علیہ السلام آگ میں ڈالے جانے کے باوجود نہیں جلے.
بالکل یہی معاملہ کورونا اور کوڑھ و طاعون جیسی متعدی بیماریوں کا بھی ہے.
یقینا بیماریاں متعدی ہوتی ہیں اور ایسے بیمار زدہ شخص سے قربت، انتقالِ بیماری کا سبب بن سکتی ہے لیکن اللہ کی مرضی سے.
گویا اللہ نے متعدی بیماریوں کے شکار شخص کے ساتھ مخالطہ یعنی اس سے قربت اور ملنے جلنے کو اس بیماری کے منتقل ہونے کا سبب بنایا ہے.
لہذا اگر اللہ چاہے تو ایسے لوگوں سے مخالطہ کے سبب بیماری منتقل ہوگی اور اگر نہ چاہے تو محض مخالطہ کی بنیاد پر بیماری خود سے منتقل نہیں ہوسکتی.
چنانچہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان
” لا عدوی” (1)
یعنی کوئی چھوت چھات نہیں ہے.
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیماریاں متعدی اور چھوت والی ہوتی ہی نہیں. بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی بیماری بغیر اللہ کے مرضی کے ،بذات خود ایک سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوسکتی.
اور نبی اکرم ﷺ نے یہ جملہ اس لئے ارشاد فرمایا تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت میں لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ بیماریاں خود بخود ایک سے دوسرے میں منتقل ہوجاتی ہیں. جیسا کہ شارحین حدیث نے اس بات کی صراحت کر رکھی ہے.(2)
لہذا جب اللہ کے نبی ﷺ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تو ایک دیہاتی صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! پھر اس اونٹ کے متعلق کیا کہا جائے گا جو ریگستان میں ہرن کی طرح صاف چمکدار ہوتا ہے لیکن خارش والا اونٹ اسے مل جاتا ہے اور اسے بھی خارش لگا دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا (کہ یہ بتاو) پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی؟ (3)
یعنی جس طرح پہلے اونٹ کو اللہ کی مرضی سے خارش لگی تھی اسی طرح بقیہ اونٹوں کو بھی اللہ کی مرضی سے ہی خارش لگی ہے. یہ الگ بات ہے پہلے اونٹ کو خارش لگنے کا سبب تمہیں معلوم نہیں جبکہ بقیہ اونٹوں کو خارش لگنے کا سبب تمہیں معلوم ہے.
اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ (4)
یعنی کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے!لہذا جس طرح آگ سے بھاگنا اور بچنا توکل کے منافی نہیں اسی طرح اس قسم کی بیماریوں کے شکار افراد سے بچنا اور احتیاطی تدابیر کرنا بھی توکل کے منافی نہیں.
یہی وجہ ہے کہ "لا عدوی” والی ہی حدیث میں خود نبی اکرم ﷺ نے ایسے مریضوں سے احتیاط کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: "فر من المجذوم کما تفر من الأسد”(5)
یعنی کوڑھ زدہ شخص سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو.
بلکہ جب قبیلہ ثقیف کے کچھ لوگ آپ ﷺ کے ہاتھوں بیعت کرنے کیلئے آئے تو آپ نے سب سے ہاتھ پر ہاتھ لےکر بیعت کی لیکن ایک شخص سے اس طرح بیعت نہیں کی کیونکہ وہ کوڑھ کا مریض تھا .بلکہ اسکی جانب پیغام بھیجا کہ ہم نے ( بالواسطہ ) تمھاری بیعت لے لی ہے ، اس لیے تم ( اپنے گھر ) لوٹ جاؤ ۔ (6)
اسی طرح طاعون کے متعلق بھی نبی اکرم ﷺ کا کچھ اسی طرح کا فرمان موجود ہے. آپ ﷺ نے فرمایا:
جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ کسی سر زمین میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو اس میں داخل مت ہو، لیکناگر کسی جگہ طاعون پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس سے بھاگنے کے لیے تم وہاں سے نکلو بھی مت۔(7)
اللہ تبارک و تعالی ہماری اصلاح کرے، ہر قسم کے وبا سے ہماری حفاظت کرے اور ایمان و اسلام پر ہمارا خاتمہ کرے.آمین.
والله تعالى أعلى وأعلم
وصلى الله على نبينا وسلم
__________________
●(1)صحیح البخاری : ۵۷۰۷
●(2)دیکھئے فتح الباری وغیرہ
●(3)صحیح البخاری : ۵۷۰۷
●(4)صحیح البخاری : ۵۷۷۱
●(5)صحیح البخاری : ۵۷۰۷
●(6)صحیح مسلم : ۲۲۳۱
●(7)صحیح البخاری: ۶۹۷۳