جب مکہ میں قرآن مجید کے نزول کی ابتداء ہوئی تو کفار مکہ نے کہا کہ یہ رب کا کلام نہیں ہے، ہم لوگ بھی اس جیسا کلام پیش کر سکتے ہیں، تو اللہ رب العالمین نے کفار کو چیلنج کیا: قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الإِنسُ وَالجِنُّ عَلى أَن يَأتوا بِمِثلِ هذَا القُرآنِ لا يَأتونَ بِمِثلِهِ وَلَو كانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهيرًا[الإسراء: ٨٨]
یعنی اے کفار مکہ پوری دنیائے انسانیت کو اکٹھا کرلو، جنات کو بھی ساتھ لے لو، اور پھر باہمی تعاون سے ایسا قرآن تیار کر کے دکھاؤ.
لیکن اس چیلنج کو پورا کرنے میں کفار ناکام ہو گئے، پھر اللہ رب العالمین نے انہیں چند سورتیں بنانے کا چیلنج دیا: فَأتوا بِسورَةٍ مِثلِهِ وَادعوا مَنِ استَطَعتُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صادِقينَ[يونس: ٣٨]
یعنی اگر تم پورا قرآن نہیں بنا سکتے تو پھر اس قرآن کے جیسی چند سورتیں ہی بنا کر پیش کردو، نیز تم ان سورتوں کو بنانے میں کسی سے بھی مدد لے سکتے ہو.
جب اس چیلنج میں بھی کفار فیل ہو گئے تو اللہ نے انہیں صرف دس سورتیں بنانے کا چیلنج کیا: قُل فَأتوا بِعَشرِ سُوَرٍ مِثلِهِ مُفتَرَياتٍ وَادعوا مَنِ استَطَعتُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صادِقينَ[هود: ١٣]
یعنی اگر تم چند سورتیں نہیں بنا سکتے تو کم از کم قرآن جیسی گنتی کی دس سورتیں ہی بنا کر پیش کردو، ان سورتوں کو تیار کرنے میں تم کسی کا بھی تعاون لے سکتے ہو.
جب کفار اس میں بھی ناکام ہو گئے تو اللہ رب العالمین نے انہیں صرف ایک سورت بنانے کا چیلنج کیا: فَأتوا بِسورَةٍ مِن مِثلِهِ وَادعوا شُهَداءَكُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صادِقينَ[البقرة: ٢٣]
یعنی اگر دس سورتیں نہیں بنا سکتے تو علی الاقل ایک سورت ہی بنا کر پیش کردو.
کفار جب ایک سورت بناکر پیش کرنے میں بھی ناکام ہو گئے تو اللہ رب العالمین نے انہیں صرف ایک آیت یا اس بھی کم بنا کر پیش کرنے کا چیلنج دیا: فَليَأتوا بِحَديثٍ مِثلِهِ إِن كانوا صادِقينَ[الطور: ٣٤]
مذکورہ آیات میں اللہ رب العالمین نے دنیائے انس وجن کو چیلنج دیا کہ وہ سب مل کر بھی کلام الہی جیسا کلام نہیں بنا سکتے بلکہ ایک آیت بھی نہیں بنا سکتے تو پھر صرف تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مل کر قرآن میں چھبیس آیتوں کا اضافہ کیسے کر سکتے ہیں؟