جب آپ کو ایک حدیث یا مسئلے کا یقینی علم ہو، اسے عمومی طور پر آگے بیان کرنا چاہیے۔ یہ شرعاً مطلوب ہے اور حدیثِ نبوی "بلغوا عنی ولو آیة” میں اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔
مگر جب کوئی متعین سوال پوچھا جائے یا مخصوص حادثہ سامنے آئے تو اس وقت "فتوی” کی کیفیت میں ضروری ہے کہ آپ کسی صاحبِ علم کی طرف کریں، کیونکہ ایسی حالت میں سوال کے ساتھ مربوط سائل یا وقت ومکان کی مختلف حالتوں کو دیکھ کر جواب دیا جاتا ہے۔
ایک طبیب بے شک بخار کی عمومی دوائی کوئی بیان کرے مگر جب بخار کا متعین مریض سامنے آتا ہے تو اسے اپنے بیان کردہ نسخے میں بھی مریض کے مناسب حال رد وبدل کرنا پڑتا ہے جس میں مریض اور اس کے ساتھ ہی مزاج وموسم کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔
اس لیے ضروری نہیں کہ ایک مسئلہ یا حدیث جو آپ نے کسی موضوع پر یاد کر رکھی ہے، وہ کسی متعین حادثے میں بھی بعینہ مسئلہ حل کر دے، بلکہ وہاں بھی دیگر نصوص کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک عالم دین ہی اس کا مکمل اور مناسب حل تجویز کر سکتا ہے۔
اس لیے بیانِ علم اور تطبیقِ علم میں فرق ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔
جیسے شریعت نے جنبی کے لیے غسل کو لازم قرار دیا ہے اور عوام اسی کو جانتی ہے، مگر جب سردی ایسی ہو کہ غسل سے نقصان کا خطرہ ہو تو وہاں ایک عالمِ دین شریعت کی دیگر نصوص اور مصالح کو مد نظر رکھتے ہوئے، جنھیں دوسرا شخص نہیں جانتا، تیمم کا متبادل حل تجویز کر دیتا ہے۔
یہ پوسٹ لکھ چکا تھا کہ اسی حوالےسے ایک دلچسپ بات یاد آئی۔ ایک مرتبہ وٹس اپ گروپ میں کسی سوال کا جواب دیا تو ایک دوست، جو درس وخطابت کا شغل بھی فرماتے ہیں مگر انحصار کتابی علم پر ہے، کہنے لگے کہ پہلے ایسے ہی ایک سوال پر آپ نے اس سے مختلف جواب دیا تھا، مگر اب آپ کا جواب الگ ہے۔ جس پر وضاحت کی کہ اُس صورت اور موجود سوال کے جواب میں فرق کی وجہ یہ اصول ہے۔
کہنے لگے کہ ایسے فرق کا پتا کیسے چلتا ہے؟
عرض کی: اس کے لیے ایک طویل مدت اساتذہ علم کے قدموں میں بیٹھنا پڑتا ہے۔۔!!!

Previous articleحافظ زبیر صاحب اور ’’ید اللہ مع الجماعۃ‘‘ کا خود ساختہ مفہوم۔
Next article اسماء اللہ الحسنی


Subscribe
0 Comments
Most Voted