سلف صالحین کی کتابوں سے جڑ کر علم حاصل کرنے والوں کی الگ ہی پہچان ہوتی ہے، کتاب وسنت کی جو تعبیر سلف صالحین کے یہاں ملتی ہے وہ کہیں بھی نہیں مل سکتی، نیز عقائد ومنہج کے باب میں کتاب وسنت کی جو تعبیر سلف نے کی ہے اس کے سوا دوسرا مفہوم بیان کرنا بدعت کہلاتا ہے بالخصوص ایسا مفہوم جس سے اہل بدعت کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہو.
حافظ زبیر صاحب کی ایک ویڈیو نظر سے گذری جس میں وہ حدیث میں وارد ’’الجماعۃ‘‘ کا مفہوم بیان کر رہے تھے، ان کے نزدیک اس کا دو مفہوم ہے، پہلا: مسلمانوں کی جماعت، اور دوسرا مفہوم جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی اور تبلیغی جماعت وغیرہ، یعنی اگر کوئی مسلمان مذکورہ جماعتوں میں سے کسی جماعت کے ساتھ ہے تو وہ اس حدیث کے مفہوم میں داخل ہے.
میں تو سمجھتا تھا کہ حافظ صاحب نے سلف صالحین کو کچھ نہ کچھ تو پڑھا ہی ہوگا، لیکن آج پتہ چلا کہ حافظ زبیر صاحب کا کل سرمایہ مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار اور ان جیسے اشخاص کا علم ہے، سلف صالحین کے علم سے تو ان کا دور دور تک کوئی ناطہ نہیں.
اب جماعت کا مفہوم اہل علم کے اقوال کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ حافظ صاحب کے خود ساختہ مفہوم کی حقیقت واضح ہو سکے:
١- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اطاعت اور جماعت کو لازم پکڑو، یہی وہ دونوں راستہ اللہ کی رسی ہے جس سے تمسک اور التزام کا حکم اللہ رب العالمین نے دیا ہے.
٢- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دوسرے قول میں کہتے ہیں کہ: جماعت سے مراد کتاب وسنت ہے.
٣- امام طبری کہتے ہیں: جماعت کو لازم پکڑنے سے مراد حاکم کی اطاعت کو لازم پکڑنا ہے، جو بیعت توڑتا ہے وہ جماعت سے نکل جاتا ہے.
٤- سواد اعظم اور جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جو حاکم کی اطاعت پر جمع ہو اور صراط مستقیم پر قائم ہو، یہ معنی ابن الاثیر رحمہ اللہ کے بیان کیا ہے.
٥- جماعت سے مراد صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اہل حدیث اور علما کرام ہیں، یہ معنی امام عبد اللہ بن مبارک، امام علی بن المدینی، امام احمد، امام بخاری اور امام ترمذی رحمہم اللہ وغیرہم نے بیان کیا ہے.
٦- امام کرمانی نے جماعت سے مراد اہل علم کا اجماع بتایا ہے.
٧- امام یحییٰ بن آدم کہتے ہیں: جماعت کو چھوڑ نے سے مراد: سنت کو چھوڑنا اور بدعت کو اختیار کرنا ہے.
٨- امام ابو شامہ کہتے ہیں: جماعت سے مراد حق کی اتباع ہے، گرچہ حق کو ماننے والے بہت تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں، اور حق کے مخالف کثیر تعداد میں کیوں نہ ہوں، اور حق وہی ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام قائم تھے، ان کے بعد تو اہل باطل کی کثرت ہو گئی جن کی کوئی حیثیت نہیں.
جماعت كو لازم پکڑنے والی احادیث کے متعلق سلف کے مذکورہ اقوال کا خلاصہ یہی ہے کہ جماعت سے مراد کتاب وسنت پر قائم رہنے والی اور اپنے حاکم کی اطاعت کرنے والی جماعت ہے.
اگر حافظ زبیر صاحب کی مراد کو صحیح ما لیا جائے تو جماعت والی حدیث کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جائے گا کیونکہ ان کا کہنا ہے ’’ مسلمانوں سے یا امت سے علاحدہ نہ ہوں‘‘ اور امت یا مسلمانوں سے علاحدہ ایک مرتد ہی ہو سکتا ہے مسلمان کو تو علاحدہ مانا ہی نہیں جا سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے بھی فرق باطلہ ہیں سب کے سب جماعت میں داخل ہیں اور ان فرق باطلہ سے الگ ہونا بھی جہنم میں جانے کی دلیل ہے!!!
یہ بات میں اپنی جانب سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس بات کا خلاصہ خود حافظ زبیر صاحب نے کیا ہے کہ آج کے زمانے میں تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی وغیرہ سے جڑے رہنا بھی جماعت ہی کہلائے گا.
اخیر میں حافظ زبیر صاحب کہتے ہیں: ’’اس قسم کی حدیثوں کو جو صرف اپنی جماعت پر چسپاں کرتے ہیں وہ مناسب نہیں ہے‘‘.
لیکن اس کے باوجود حافظ صاحب اپنی جماعت کا چورن بیچ کر چلے گئے کہ آج کے زمانے میں جماعت والی احادیث کے مصداق کون سی جماعت ہے!!!
مطلب حافظ صاحب اپنی جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی اور تبلیغی جماعت کو پروموٹ کریں تو بالکل مناسب ہے لیکن اگر کوئی منہج سلف کو پروموٹ کرے تو وہ ’’امپورٹڈ سلفیت ہو جاتی ہے‘‘.