اکثر وبیشتر گمراہ فرقوں میں ایک چیز مشترک پائی جاتی ہے، وہ ہے سنت رسول سے انحراف۔ کسی نے سنت رسول کی حجیت کا ہی سرے سے انکار کر دیا، اور صرف قرآن پر بس کرنےاور اسے شریعت کے لئے کافی قرار دینے کا خوش نما نعرہ بلند کیا۔ بر صغیر کے اہل الذکر والقرآن گروپ، امت مسلمہ گروپ، تحریک تعمیر انسانیت، اور طلوع اسلام گروپ کا یہ واضح طریقہ ہے۔
کسی نے خبر واحد اور متواتر کے درمیان فرق کیا، اور عقائد واحکام کے باب میں صرف متواتر کو حجت قرار دیا۔
خبر واحد کا انکار ایک طرح سے سنت رسول کا مطلقا انکار ہی ہے، کیونکہ اکثر احادیث کا شمار آحاد میں ہوتا ہے متواتر میں نہیں۔
انکار سنت کا ایک طریقہ بعض نے یہ نکالا کہ محدثین کے منہج سے انحراف کرتے ہوئے عقل اور ذوق کو احادیث کی صحت وضعف کا معیار قرار دیا، اور جو احادیث ان کے ذوق کے بر خلاف معلوم ہوئیں انھیں غیر معتبر قرار دے دیا ، چاہے وہ صحیحین میں ہی کیوں نہ ہوں۔ مولانا ابو الاعلی مودودی نے اسی راستے سے ابراہیم علیہ السلام کی کذبات ثلاثہ والی حدیث، سلیمان علیہ السلام کی ایک ہی رات نوے بیویوں سے مجامعت والی حدیث، اور دجال کے مقید ہونے کے متعلق خبر دینے والی حدیث – جو حدیث جساسہ کے نام سے مشہور ہے- کا انکار کیا حالانکہ یہ احادیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں صحیح سند سے مروی ہیں۔
بعض نے محدثین کے اصول کے مطابق حدیث صحیح ہونے کے باوجود اسے صرف اس لئے قابل حجت نہیں مانا کیونکہ اس سے ان کے تقلیدی مذہب پر ضرب پڑ رہى تھى۔ اس لئے اس کی ایسی ایسی تاویلیں کیں کہ الامان والحفیظ، یہاں تک کہ مذہب کی تقلید میں گرفتار ہوکر بعض صحابہ کرام پر عدم فقاہت کا الزام لگایا، اور حدیث رسول کو موہوم قیاس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ حدیث مصراۃ کے ساتھ متکلمین معتزلہ اور احناف نے یہی رویہ اپنایا۔
بعض نے ایک دوسرا ہی طریقہ نکالا، وہ ہے ضعیف اور موضوع روایات کو قبولیت کا درجہ دے کر ان سے شرعی مسائل کا استنباط۔ اس سے بدعت وخرافات کا دروازہ ایسا کھلا جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر وبیشتر بدعات کے پیچھے کوئی نہ کوئی ضعیف یا موضوع روایت ہوتی ہے۔ یہی احادیث صوفیوں اور قبر پرستوں کی اصل پونجی ہوا کرتی ہیں۔ اور انھیں کے سہارے ان کی دکانیں سجتی ہیں۔
سنت سے انحراف در اصل دین سے انحراف ہے، اسی لئے سلف صالحین کہا کرتے تھے: "السُّنَّةُ سَفِينَةُ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ”.
سنت نوح علیہ السلام کی کشتی ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا، اور جو پیچھے رہا وہ غرق آب ہو گیا۔