بدعتیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی ممانعت میں کتاب وسنت اور سلف صالحین کے نصوص بھرے پڑے ہیں۔ امام ابن بطہ العکبری رحمہ اللہ نے ”الإبانة عن شريعة الفرقة الناجية ومجانبة الفرق المذمومة“ اور امام لالکائی نے ”شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة“ میں خیر القرون کے ایک دو نہیں، بلکہ دو سو سے زائد نصوص ذکر کئے ہیں جن میں اہل بدعت کی ہم نشینی سے اجتناب کا حکم اور نصیحت موجود ہے۔
امام لالکائی نے کتاب کے شروع میں ہی ثابت بن عجلان رحمہ اللہ کا ایک اثر ذکر کیا ہے جس سے اس مسئلہ میں سلف صالحین کا منہج دو دو چار کی طرح بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:
أَدْرَكْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ , وَابْنَ الْمُسَيِّبِ , وَالْحَسَنَ الْبَصْرِيَّ , وَسَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ , وَالشَّعْبِيَّ , وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيَّ , وَعَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ , وَطَاوُسًا , وَمُجَاهِدًا , وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ , وَالزُّهْرِيَّ , وَمَكْحُولًا , وَالْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَعَطَاءً الْخُرَاسَانِيَّ , وَثَابِتًا الْبُنَانِيَّ , وَالْحَكَمَ بْنَ عُتْبَةَ , وَأَيُّوبَ السِّخْتِيَانِيَّ , وَحَمَّادًا , وَمُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ , وَأَبَا عَامِرٍ, – وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ – , وَيَزِيدَ الرَّقَاشِيَّ , وَسُلَيْمَانَ بْنَ مُوسَى , كُلُّهُمْ يَأْمُرُونَنِي فِي الْجَمَاعَةِ , وَيَنْهَوْنَنِي عَنْ أَصْحَابِ الْأَهْوَاءِ۔ [شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، 1/150]
میں نے انس بن مالک، ابن مسیب، حسن بصری، سعید بن جبیر، شعبی، ابراہیم نخعی، عطا بن ابی رباح، طاوس، مجاہد، عبد اللہ بن ابی ملیکہ، زہری، مکحول، قاسم ابو عبد الرحمن، عطا الخراسانی، ثابت البنانی، حکم بن عتیبہ، ایوب السختیانی، حماد، محمد بن سیرین، ابو عامر –انھوں نے ابو بکر صدیق کا زمانہ پایا ہے-، یزید الرقاشی اور سلیمان بن موسی کو پایا ہے سبھی مجھے جماعت کو لازم پکڑنے اور خواہش پرستوں سے دور رہنے کا حکم دیتے تھے۔
انسان کا دل بہت کمزور ہے، اور شیطان ہمیشہ اس کے ساتھ لگا ہوا کہ کب اس کے دل میں منحرف افکار یا شکوک وشبہات کے بیج ڈال دے۔ اس لئے اپنی دنیا وآخرت کی حفاظت کے لئے ایسے منحرف افکار کے حاملین سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔
موجودہ دور میں جس منحرف فکر نے امت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے وہ اخوانیت اور تحریکیت کی فکر ہے۔ سید قطب، حسن البنا اور مولانا مودودی وغیرہ کی تحریک اور لٹریچروں نے لوگوں کو صحابہ کرام پر زبان درازی کے لئے کتنا بے لگام کر دیا ہے یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس کا نمونہ ہم آئے دن دیکھتے ہی رہتے ہیں۔
اسی طرح اس فکر نے گزشتہ کچھ سالوں میں عالم اسلام کے امن وسکون کو جو درہم برہم کیا ہے وہ کسی انصاف پسند عقلمند پر مخفی نہیں۔ اس لئے ابھی حال ہی میں سعودی عرب کے کبار علما نے ایک سرکولر جاری کرکے اس جماعت کے دہشت گرد اور منحرف وگمراہ جماعت ہونے کی صراحت کی ہے اور امت کو اس کے منحرف افکار سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
ایسے لوگوں کی کتابوں کو حرز جان بنانا اور ان افکار کے حاملین کے ساتھ نشست وبرخاست اور ان کے بعض اچھے خیالات کی عوامی اسٹیج سے تائید کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ اپنے باطل افکار میں مگن رہتے ہیں، اور بہت سارے سادہ لوح حضرات ان کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ اور کوئی بعید نہیں کہ کچھ دنوں کے بعد تائید کرنے والا بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ میرا علم ومنہج قوی ہے، مجھے وہ اپنے منحرف افکار سے متاثر نہیں کر سکتا لیکن دیکھتے دیکھتے کب ان کی دنیا وآخرت اجڑ چکی ہوتی ہے انھیں پتہ بھی نہیں چلتا۔
بعض وہ کبار محدثین جن کے اندر ان کی ہم نشینی کی وجہ سے تصوف، اشعریت، اور شیعیت جیسی بعض بدعات سرایت کر گئی تھیں ہمارے لئے باعث عبرت ہیں۔
کیا ان کا علم کم تھا؟ یا وہ اپنے دین وایمان کو لے کر فکر مند نہیں تھے؟
پھر کیوں ان میں اس طرح کی بعض بیماریاں داخل ہو گئیں؟
میرے ایک جاننے والے ہیں جو دینی مزاج رکھتے ہیں، مطالعہ سے دلچسپی ہے، خصوصا مولانا مودودی کی کتابوں سے۔ تفہیم القرآن کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ حالانکہ اس تفسیر میں دیگر انحرافات کے ساتھ ساتھ منکرین سنت کو جو چور دروازے فراہم کئے گئے ہیں، اور نصوص صفات کی جو تاویل یا تعطیل کی گئی ہے وہ اہل علم پر مخفی نہیں۔
ایک دن صحیحین کی کذبات ثلاثہ والی حدیث کی صحت کے متعلق شک وشبہ کا اظہار کرنے لگے۔ مجھے احساس ہو گیا کہ یہ منحرف فکر کہاں سے سرایت کی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا: وہ کون سے کذبات اس حدیث میں بیان ہوئے ہیں جن کی وجہ سے آپ کو اس کی صحت کے بارے میں اشکال ہے؟
کہنے لگے: ابراہیم علیہ السلام بیمار نہیں تھے پھر بھی انھوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں۔
میں نے کہا: یہ تو قرآن میں موجود ہے۔ سورہ صافات میں خود اللہ تعالی نے اسے بیان کیا ہے۔
میں نے کہا: دوسرا کذاب؟
کہنے لگے: خود بتوں کو توڑ کر انکار کرنا اور بڑے بت کا نام لینا۔
میں نے کہا: یہ بھی قرآن میں اللہ تعالی نے بیان کیا ہے۔ سورہ انبیاء میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ لیکن اس حدیث میں کذب سے مراد کیا ہے اسے علما نے بیان کیا ہے۔ اس لئے ان کی تشریحات کی روشنی میں اسے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ جب یہ قرآن میں ہے تو کیا قرآن کے بارے میں بھی آپ کو شک وشبہ ہے؟
پھر وہ خاموش ہوگئے۔
اور ایک دن کا واقعہ ہے۔ کہنے لگے کہ کیا سورۃ الناس اور سورۃ الفلق کے قرآن کا جزء ہونے کے بارے میں شک ہے؟
مجھے حد درجہ تعجب ہوا کہ قرآن کے بارے میں شک!!!
میں نے کہا: اس شک کی وجہ؟
کہنے لگے مولانا مودودی صاحب نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو ان دو سورتوں کے متعلق شک تھا کہ یہ قرآن کا جزء ہیں یا نہیں۔ حالانکہ انھوں نے اس کی تردید بھی کی ہے۔
آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ اگر کسی کو دین کے بنیادی مصادر کے بارے میں ہی شک وشبہ ہو جائے تو پھر آخر اس کے پاس بچتا ہی کیا ہے۔
لیکن افسوس اور تعجب کی بات یہ ہے کہ آج کل سلفیت کے نام پر ان منحرف افکار کے حاملین کی کتابوں کی طرف رجوع کی دعوت دی جاتی ہے۔ اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ کتاب وسنت کی طرف رجوع کا "صحیح منہج” ہے۔
ان کی کتابوں میں منہج کی کیا کچھ خرابیاں موجود ہیں انھیں حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ اور دیگر سلفی علما نے بہت اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔
لہذا لوگوں کو ان کی کتابوں کی طرف رجوع کی دعوت کے بجائے بچنے کی تلقین کرنا ہی ان کے ساتھ حقیقی خیر خواہی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں سلف صالحین کے منہج کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔