پہلی قسط
احکام اسلامی کے مصادر میں قیاس بڑی اہمیت کا حامل ہے. چونکہ شریعت اسلامیہ تمام زمان و مکان اور اشخاص و افراد کو شامل ہے، لہذا اس کے اندر ہر شخص اور ہر زمانے کیلیے مکمل راہنمائی اور قیامت تک پیش آمدہ تمام مسائل کو یقینی حل موجود ہونا لازمی امر ہے.
زمانے کی ترقی، نت نئی ایجادات اور جدید حوادث اپنے اندر بے شمار سوالات لیے ہوئے نمودار ہوتی ہیں، جن کے شرعی حکم کے بارے میں جاننا ایک مسلمان کیلیے لازم ہو جاتا ہے.
اب یہ یقینی امر ہے کہ ان جدید مسائل کا شرعی حکم جاننے کیلیے ہمیں کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر اس کا مناسب حل تلاش کرنا ہوگا. تا کہ یہ بات اپنی جگہ مسلم رہے کہ تمام جدید مسائل کا حل قرآن و حدیث میں موجود ہے. یہی وجہ ہے کہ شریعت نے قیاس کو چند اصول و شرائط کے ساتھ حجت مانا ہے.
لہٰذا اس تحریر میں قیاس کا مفہوم اور اس کی حجیت کے تعلق سے چند باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا. ان شاء اللہ.
قیاس کی تعریف:
کسی مشترکہ علت کی وجہ سے فرع کو اصل کے حکم کے ساتھ ملانا قیاس کہلاتا ہے.
توضیح:
نئے پیش آمدہ مسئلے کو، قرآن و حدیث میں موجود کسی مسئلے پر قیاس کرنا، ایک ایسی علت کی وجہ سے جو دونوں میں مشترک ہو.
لہذا قیاس صحیح اس قیاس کو کہتے ہیں جس میں چار امور پائے جائیں:
- اصل: قرآن یا حدیث میں ایک ایسے مسئلہ کا موجود ہونا جو نئے مسئلہ کے ہم مثل ہو.
- فرع: نو پیش آمدہ مسئلہ جس کا حکم قرآن و حدیث میں نہ ہو.
- حکم: دونوں پر یکساں حکم لگنا.
- علت: ایک ایسی علت کا پایا جانا جو دونوں مسئلہ کو ایک ہی حکم میں جمع کرے.
ان چاروں کو "ارکان قیاس” بھی کہا جاتا ہے.
قیاس کے درست ہونے کیلیے ان چاروں ارکان کا بیک وقت پایا جانا لازم ہے، بصورت دیگر قیاس صحیح نہ ہوگا.
قیاس کی حجیت کے بعض دلائل:
پہلی دلیل:
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: وَلَوۡ رَدُّوۡهُ اِلَى الرَّسُوۡلِ وَاِلٰٓى اُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡهُمۡ. (النساء، آیت: 83)
ترجمہ: اگر یہ لوگ اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور اپنے میں سے صاحب رائے اور اہل علم و فقہ کی طرف معاملے کو لوٹاتے تو وہ اس سے مستنبط مسئلہ کو جان لیتے.
وجہ استدلال: استنباط، اجتہاد کا دوسرا نام ہے جو کہ قیاس کی ایک قسم ہے، اور اللہ رب العالمین نے اس آیت میں اجتہاد اور اہل اجتہاد کی تعریف کی ہے.
لہذا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ استنباط و اجتہاد شریعت میں معیوب نہیں ہے.
امام بغوی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "وفي الآية دليل على جواز القياس، فإن من العلم ما يدرك بالتلاوة والرواية، وهو النص،
ومنه ما يدرك بالإستنباط وهو القياس على المعاني المودعة في النصوص”. (تفسير البغوي: ج-1، ص-667)
ترجمہ: اس آیت میں قیاس کے جواز کی دلیل موجود ہے اور یوں کہ علم دو طرح کا ہوتا ہے:
ایک وہ : جو مجرد قرآنی آیات اور احادیث کو پڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے. اسے (اصطلاح میں) "نص” کہا جاتا ہے.
دوسرا وہ : جو استنباط کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے.
استنباط کا مطلب یہ ہے کہ: قرآن و حدیث کے نصوص میں جو علتیں بیان کی گئی ہیں اس پر (دوسرے غیر منصوص مسائل کو) قیاس کرنا.