آخری قسط
اہل علم کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب عام راتوں کی طرح ہے، اس کی کوئی فضیلت دوسری راتوں پر ثابت نہیں ہے اور اس باب میں جتنی بھی روایات آئی ہیں، وہ سب ضعیف اور منکر ہیں ۔ امام ابن العربی المالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ليس في ليلة النصف من شعبان حديث يساوي سماعه”. (عارضة الأحوذي: 2/201). پندرہویں شعبان کی شب کے متعلق کوئی ایسی حدیث بھی نہیں ہے جو سننے کے قابل ہو. امام ابن باز رحمہ اللہ نے بھی اس رات کی فضیلت میں وارد روایات کو ضعیف، غیر ثابت اور ناقابل اعتبار کہا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بحوالہ سنن ابن ماجہ جس کا ذکر سابقہ سطور میں آچکا ہے کہ غروب آفتاب سے طلوع فجر صادق تک رب العالمین نچلے آسمان پر اتر کر بخشش، روزی اور صحت و عافیت عطا فرماتا ہے، ایک باطل اور من گھڑت روایت ہے۔
دوسری روایت جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک شب میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہیں پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی آپ کو بقیع (اہل مدینہ کی قبرستان) میں پایا تو آپ نے (گھر آ کر) فرمایا کیا تم اس بات سے ڈرتی تھی کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے گمان کیا کہ آپ اپنی بعض بیویوں کے پاس کسی ضرورت سے تشریف لے گئے ہوں گے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات کو سماء دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے. (ترمذی: 736، ابن ماجہ:1389) اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ نامی راوی ہے اور میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس کو ضعیف کہتے ہوئے سنا ہے۔ حجاج ضعیف راوی ہے اور اس نے یحییٰ ابن کثیر سے روایت کی ھے حالانکہ سماع ثابت نہیں ہے اور یحییٰ نے عروہ سے روایت کی ہے اور یحییٰ کا سماع بھی عروہ سے ثابت نہیں ہے اس طرح دو مقامات پر انقطاع ہے لہٰذا سند متصل نہیں ہے.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بقیع غرقد کے اموات کی مغفرت کے لیے ایک رات قبرستان جانا صحیح مسلم اور سنن نسائی میں بسندصحیح ثابت ہے لیکن شعبان کی پندرہویں رات کی قید کے بغیر۔ گویا اصل حدیث صحیح ہے لیکن رات کی تعیین کے ساتھ حدیث ضعیف جدا ہے لہذا پندرہویں شعبان کی شب میں زیارتِ قبر غیر مسنون عمل ہے البتہ زیارت قبور کبھی بهى تاریخ اور وقت کے تعین کے بغیر محبوب اور مسنون عمل ہے اس سے آدمی کو اپنی موت یاد آتی ہے اور اموات کو زائرین کی دعاء مغفرت بھی حاصل ہوتی ہے تاہم اپنی طرف سے وقت اور تاریخ متعین کرنا جائز نہیں ہے۔ بلا دلیل شرعی وقت اور جگہ کی تعیین کسی بھی مسنون و مستحب عمل کو بدعت بنا دیتی ہے۔ ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : يَا على من صلى مائَة رَكْعَة فِي لَيْلَة النّصْف، يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكتاب وَقل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، عَشْرَ مَرَّاتٍ إِلَّا قضى الله لَهُ كل حَاجَة۔ (رواه ابن الجوزی فی الموضوعات 2/127)
اے علی ! جس نے پندرہویں کی شب میں سو رکعت نماز ادا کی اس طور سے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ ایک مرتبہ، قل هو الله أحد دس مرتبہ پڑھا تو اللہ تعالی اس کی ہر حاجت پوری فرمائے گا (اس روایت کو امام ابن الجوزی، امام شوکانی اور علامہ عبد الحی لکھنوی نے باطل اور من گھڑت کہا ہے: الفوائد المجموعة: ص 50، والإبداع للشيخ علي محفوظ: 286-228 ، والآثار المرفوعة: ص:81)
اس من گھڑت نماز کو ہزاری نماز بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ ہر رکعت میں دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی جاتی ہے. سو کو دس سے ضرب دیں تو ایک ہزار ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ
مخصوص کیفیات، محدود رکعات اور متعین ومعدود سورتوں کے ساتھ نماز ادا کرنا قبیح بدعت ہے۔ اس نماز کی بدعت ابن ابی الحمراء نابلسی فلسطینی نے 448 ھ میں بیت المقدس میں پہلی مرتبہ شروع کی تھی، اچھی تلاوت کرتاتھا اس کے پیچھے ایک آدمی نے نماز شروع کی پھر دو، تین، چار لوگ شریک ہو گئے اور سو رکعت سے فراغت کے وقت ایک بڑی جماعت اس کی اقتدا میں موجود پائی گی گئی۔رفتہ رفتہ یہ بدعت چل پڑی۔
علامہ عراقی نے احیاء العلوم کی تخریج میں اس کو باطل قرار دیا ہے. لہذا کسی کو امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب میں اس نماز کے ذکر سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے، یہ ایک منکر اور قبیح عملی اور موسمی بدعت ہے جس سے اجتناب لازم ہے.
یہ اور اس جیسی دوسری نماز جو صلاۃ الرغائب کے نام سے مخصوص کیفیت کے ساتھ ماہ رجب کی پہلی شب جمعہ کو ادا کی جاتی ھے، سراسر باطل ہیں، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین تو کجا، ائمہ کرام امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالی سے بھی ثابت نہیں ہے۔
پندرھویں شب کی فضیلت میں وارد بعض حدیث کو محدث عصر امام البانی رحمہ اللہ تعالی نے اور ان سے قبل بھی بعض محققین مثلا علامہ مبارکپوری رحمه الله وغيره نے حسن یا صحیح قرار دیا ہے اور وہ حدیث یہ ہے: "إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن”.
یعنی اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی شب میں (بندوں کی طرف) متوجہ ہوتا ہے، چنانچہ مشرک اور بغض وعداوت رکھنے والے کے علاوہ ہر کسی کی مغفرت فرماتا ہے۔
امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ: یہ حدیث صحیح ہے جو متعدد صحابہ مثلاً معاذ بن جبل، ابو ثعلبہ الخشنی، عبداللہ بن عمرو، ابو موسی اشعری، ابو ہریرہ، ابو بکر صدیق، عوف بن مالک اور عائشہ (رضي الله عن الجميع وأرضاهم) سے مختلف سندوں سے منقول ہے جس سے حدیث میں تقویت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بلاشبہ درجہ ضعف سے نکل کر درجہ صحت تک پہنچ جاتی ہے. (السلسلة الصحيحة: 3/ 138-139)
آگے علامہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ثبوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ رات عبادت کا خاص موسم ہے جس میں لوگ جمع ہو کر عبادت بجا لائیں. حدیث کا مفاد صرف اتنا ہے کہ آدمی خود کو شرک اور عداوت سے پاک رکھے تاکہ مغفرت الہی کا مستحق ٹھہرے. اس رات میں کوئی طریقہ عبادت بیان نہیں کیا گیا ہے، آدمی اپنی عادت کے مطابق نماز پڑھے تلاوت اور ذکر و دعا کرے لیکن خلاف عادت صرف اس رات میں جاگنا، قبروں کی زیارت کرنا، وعظ و تذکیر کی مجلس منعقد کرنا، اور تہجد پڑھنا صدقہ وخیرات کرنا وغیرہ عمل اس کے لئے جائز نہیں ہے۔
ملک شام کے بعض تابعین جیسے خالد بن معدان مکحول اور لقمان بن عامر وغیرہم سے اس رات کی تعظیم اور اس میں عبادت کا خاص اہتمام منقول ہے اور لوگوں نے انہیں سے یہ عمل لیا ہے، ورنہ سنت نبویہ اور سنت خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے.
علماء شام اس رات کی عبادت کے سلسلے میں دو نظریات کے حامل ہیں ایک قول مسجد میں اجتماعی عبادت کے استحباب کا ہے تو دوسرا قول انفرادی عبادت کے جواز کا ہے.
لہذا اس قول کی بنیاد پر مسجد میں نمازوں دعاؤں اور قصہ گو حضرات کی باتوں کے لیے اکٹھا ہونا مکروہ ہے. علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنا میلان بھی اسی کی طرف ظاھر کیا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس رات کی عبادت کے متعلق کوئی ثبوت موجود نہیں ہے تو امام اوزاعی اور ابن رجب وغیرھما کا انفرادی قیام اللیل اور تلاوت ودعا کو مستحب قرار دینا بھی کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ؟ کوئی بھی چیز جو شرعی دلیلوں سے ثابت نہ ہو وہ کسی بھی صورت مستحب نہیں ہوسکتی خواہ اسے انفرادی یا اجتماعی، ظاہری یا باطنی کسی بھی طریقہ پر انجام دیا جائے. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے: "مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْس عَلَيْهِ أمْرُنا؛ فَهْوَ رَدٌّ”. (صحیح مسلم: 1718) جس عمل پر میرا حکم نہ ہو (شرعی دلیل نہ ہو) وہ عمل مردود ہے. (فتاویٰ الامام ابن باز: 1/189)
حضرت عکرمہ وغیرہ سے جو بات نقل کی جاتی ہے کہ سورہ دخان کی آیات 2 اور 3 میں "ليلة مباركة” سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے یہ قول بشرط صحت نقل بھی غلط ہے. جس لیلہ مبارکہ میں قرآن مجید کے نزول کی بات اللہ رب العالمین نے بیان فرمائی ہے وہ وہی لیلۃ القدر ہے جو ماہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے ،جس میں سال بھر کے محکم فیصلے، موت اور روزی وغیرہ سے متعلق معاملات لوح محفوظ سے نقل کر کے فرشتوں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں۔
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ زیاد نمیری (قصہ گو) کہتا ہے کہ ماہ شعبان کی پندرہویں شب کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے، تو فرمایا کہ اگر میں اسے ایسا کہتے ہوئے سنتا اور میرے ہاتھ میں عصا ہوتی تو میں اسے ضرور مارتا. (الباعث على إنكار البدع: 1/35)
لہذا پندرھویں شب کو شب برات (چھٹکارے کی رات) کہنا اس میں نماز ادا کرنا صدقہ و خیرات کرنا اور حلوے بانڈے اور عمدہ کھانے تیار کرنا ایسی چیزیں ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ اور سنت مصطفی میں نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کا کوئی عمل سلف امت سے جو لائق اقتدا ہیں، ثابت ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی اپنے نفس کا خیر خواہ ہو اور اپنے اعمال صالحہ کی بربادی سے بچنے کا خواہاں ہو اسے بدعات وخرافات سے پرہیز کرنا چاہیے.
خير الأمور السالفات على الهدى
شر الأمور المحدثات البدائع
والله الموفق والهادى إلى سواء السبيل. والحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله وخليله محمد وعلى آله وصحبه ومن اتبع هديه إلى يوم الدين.