اس کتاب کی نسبت امام لالکائی طرف ان کے شاگرد خطیب بغدادی (ت: ٤٦٣ھ) نے "تاریخ بغداد”([1]) میں کی ہے، نیز ان کے بعد آنے والے اہل علم ہر زمانے میں اس کتاب کو انہی کی طرف منسوب کرکے استفادہ کرتے رہے ہیں۔
جیسے: یحیی بن ابی الخیر سالم العمرانی (ت: ٥٥٨ھ) نے اپنی کتاب "الانتصار فی الرد علی المعتزلۃ القدریۃ الاشرار” ([2]) میں، ابن الجوزی رحمہ اللہ (ت: ٥٩٥ھ) نے اپنی کتاب "المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ([3]) میں، بلکہ انہوں نے اس کتاب کو اسناد کے ساتھ روایت بھی کیا ہے، عبد الغنی المقدسی رحمہ اللہ (ت: ٦٠٠ھ)، نے اپنی کتاب "عقیدۃ المقدسی” ([4]) میں، ابن نقطہ رحمہ اللہ (ت: ٦٢٩ھ) نے اپنی کتاب "التقیید لمعرفۃ السنن والمسانید” ([5]) میں، اور انہوں نے ذکر کیا ہے کہ امام لالکائی کی اس کتاب کو محمد عبد القادر الرُّھاوی، اور عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی نے حافظ ابو طاہر السِّلفی سے اسناد کے ساتھ سنا ہے، ابن ابی شامہ رحمہ اللہ (ت: ٦٦٥ھ) نے اپنی کتاب "الباعث علی انکار البدع والحوادث”([6])، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ت: ٧٢٨ھ) نے اپنی کتاب "الفتوی الحمویۃ الکبری([7]) میں، اور دیگر تصانیف میں بھی، بدر الدین بن جماعۃ (ت: ٧٣٣ھ) نے اپنی کتاب "ایضاح الدلیل فی قطع حجج اہل التعطیل” ([8]) میں، ذہبی (ت: ٧٤٨ھ) نے "سیر أعلام النبلاء” ([9]) میں، ابن رجب الحنبلی (ت: ٧٩٥ھ) نے "جامع العلوم والحکم ([10]) میں، ابن المقلن (ت: ٨٠٤ھ) نے ” التوضيح لشرح الجامع الصحیح” ([11]) میں، ابن حجر (ت: ٨٥٢ ھ) نے "الإصابة فی تمییز الصحابۃ” ([12]) میں، العینی (ت: ٨٥٥ھ) نے "عمدۃ القاری” ([13]) میں، سیوطی (ت: ٩١١ھ) نے "الدر المنثور” ([14]) میں، مرعی بن یوسف الحنبلی (ت: ١٠٣٣ھ) نے "أقاویل الثقات فی تاویل الأسماء والصفات…” ([15]) میں، محمد بن احمد السفارینی (ت: ١١٨٨ھ) نے "لوامع الانوار البھیۃ ([16]) میں، شوکانی (ت: ١٢٥٠ھ) نے "فتح القدیر”([17]) میں، نعمان آلوسی (ت: ١٣٧١ھ) نے "جلاء العینین فی محاکمۃ الأحمدین” ([18]) میں اس کتاب سے استفادہ بھی کیا ہے اور صراحت کے ساتھ اس کی نسبت مؤلف کی طرف کی ہے۔
کیا-شرح-اصول-اعتقاد-اہل-السنہ-امام-لالکائی-کی-کتاب-نہیں-ہے