[اہل بدعت سے استفادہ کے تعلق سے ڈاکٹر زبیر صاحب کے بعض اعتراضات کا جواب]
اہل بدعت کی تقریریں سننا، ان کی کتابیں پڑھنا اور ان کی مدح وتعریف میں رطب اللسان ہونا؛ موجودہ دور کے عظیم فتنوں میں سے ایک ہے، جس کے شکار عوام کے ساتھ ساتھ بعض اہل علم بھی ہوچکے ہیں، نتیجتاً اس قسم کے لوگوں میں "ذرا سی سلفیت” اور "پوری مودودیت” موجود ہوتی ہے، چنانچہ جب ہم منہج کے سلسلے میں کوئی گفتگو کرتے ہیں یا منہجی انحراف پر رد کرتے ہیں تو اس قسم کے "فکر مودودی” کے حاملین یا ان سے متاثر حضرات زبانی نشتر چلاتے ہیں، اکابر کا مخالف گردانتے ہیں.
چند دنوں پہلے حافظ زبیر صاحب کی بعض تحریریں اس تعلق سے نظر سے گزریں، اول اول تو حافظ صاحب نے اپنے مزعومہ منہج کی دلیل میں بعض اہل حدیث علما کو بطور دلیل پیش کیا،پھر یہ دعویٰ کیا کہ اہل بدعت سے استفادہ کے سلسلے میں کوئی نص قرآنی یا سلف کا اجماعی موقف نہیں ہے.
سب سے پہلی بات: سلفی منہج کے اصول وضوابط متقدمین سلف صالحین سے لیے جائیں گے. اس منہج کے اصول؛ کتاب وسنت میں موجود ہیں جنہیں صحابہ وتابعین اور ائمہ اہل حدیث نے بیان کیا ہے.
دوسری بات: اس حدیث "لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق” میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر ثابت رہے گی، کا تقاضا یہ ہے کہ متبعین منہج سلف؛ تا قیامت ایک ہی منہج پر رہیں گے، نیز حدیث مذکور میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ منہج سلف سے انحراف کرنے والے خود نقصان کے شکار ہونگے.
لہذا متقدمین سلف کے مقابلے میں متاخرین میں سے بعض کا منہج پیش کر کے یہ باور کرانا ہے کہ متقدمین اور متاخرین میں اختلاف ہے در حقیقت سلف کے منہج میں نقب زنی کی ناپاک کوشش ہے.
محترم ڈاکٹر صاحب! دل اگر اجازت دے تو ذرا سلف کی تفاسیر کی بھی ورق گردانی کر لیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ سلف نے آپ کے تمام اعتراضات کا جواب بڑے اچھے انداز میں دیا ہے، چنانچہ رب العالمین کے فرمان: [[وَاِذَا رَاَيۡتَ الَّذِيۡنَ يَخُوۡضُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ حَتّٰى يَخُوۡضُوۡا فِىۡ حَدِيۡثٍ غَيۡرِهٖ ؕ وَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ ۞]]
ترجمہ: [[اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں.]]
کی تفسير میں عظیم تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: یہ آیت اہل بدعت کے سلسلے میں نازل ہوئی. (ملاحظہ فرمائیں: تفسیر ابن ابی حاتم: 4/1314)
امام مجاہد رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر کچھ یوں کی ہے: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کی باطل تاویل کرتے ہیں. (تفسیر قرطبی: 7/12).
امام قرطبی رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت میں ان لوگوں پر رد ہے جو عوام میں مرجع کی حیثیت رکھنے والے علما اور ان کے متبعین کیلیے اہل فسق وفجور کی مصاحبت جائز سمجھتے ہیں، نیز از روئے مصلحت ان آراء کی تصویب میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جانتے. (تفسیر قرطبی:7/12).
امام قرطبی رحمہ اللہ نے ابن خویز منداد رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:……. کفار اور اہل بدعت کی مجالس میں بیٹھنا، ان سے محبت رکھنے کو جائز سمجھنا، ان کی باتیں سننا اور ان سے مناظرہ کرنا ہمارے نزدیک جائز نہیں.
ابو عمران النخعی رحمہ اللہ سے ایک بدعتی نے کہا کہ: میری ایک بات سن لیں. ابو عمران النخعی نے اس سے منہ پھیر کر کہا کہ نصف جملہ بھی نہیں سن سکتا.
امام قرطبی رحمہ اللہ مذکورہ اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ان تمام نقولات سے ان لوگوں کے قول کا بطلان ثابت ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بدعتی کی غلط باتوں سے اجتناب کیا جائے تو ان کے ساتھ بیٹھنا جائز ہے. (تفسیر قرطبی: 7/13).
امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس آیت سے سے اہل بدعت کی مجالست سے ممانعت پر استدلال کیا ہے. (فتح القدیر: 2/ 146).
بلکہ امام بغوی رحمہ اللہ نے اہل بدعت سے دشمنی اور ان سے دوری رکھنے کے سلسلے میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور علماء اہل سنت کا اجماع نقل کیا ہے، فرماتے ہیں: وَقَدْ مَضَتِ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ وَأَتْبَاعُهُمْ، وَعُلَمَاءُ السُّنَّةِ عَلَى هَذَا مُجْمِعِينَ مُتَّفِقِينَ عَلَى مُعَادَاةِ أَهْلِ الْبِدْعَةِ، وَمُهَاجَرَتِهِمْ.
اس کے معا بعد ابو قلابہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ: اہل بدعت کے ساتھ نہ بیٹھو، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ تمہیں اپنی ضلالت میں نہ ڈبو ڈیں، پھر تمہارے اوپر حق وباطل کی معرفت ملتبس ہو جائے گی. (شرح السنة للبغوي (1/ 227).
اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اہل بدعت سے عداوت اور ان سے دوری اور علیحدگی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی باتیں بھی نہ سنی جائیں.
یہی وجہ ہے کہ امام بغوی رحمہ اللہ نے عہد صحابہ سے لے کر اپنے زمانے کے علماء اہل سنت کا اجماع نقل کرنے کے بعد اہل بدعت کی مجالست اور ان کے افکار سننے کی ممانعت میں وارد قول سلف پیش کیا.
عیسٰی بن یونس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہمیہ کے پاس نہ بیٹھو، عوام الناس کے سامنے ان کی بدعات کی نقاب کشائی کرو تا کہ لوگ ان کی حقیقت سے آگاہی حاصل کر سکیں اور ان سے بچ سکیں. (النقض على بشر المريسي: 1/164).
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے بشر المریسی پر رد کرتے ہوئے فرمایا: "لا تجالسوهم ولا تسمعوا كلامهم.” (خلق أفعال العباد: 2/25). نہ ان کے پاس بیٹھو اور نہ ہی ان کی باتیں سنو.
محترم قارئین! یہ چند ایک دلائل میں نے بطورِ حجت پیش کیے ہیں، جبکہ اس موضوع سے متعلق قرآن وحدیث کے دلائل اور سلف صالحین کے اقوال بے شمار ہیں، جنہیں یہاں بیان کرنا موضوع کی طوالت کا موجب ہے.
اللہ ہمیں حق وہدایت کی راہ پر چلائے اور ضلالت وگمراہی سے بچائے. آمین.