ماضی قریب کی بات ہے، کچھ زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا، اہل حدیث علما وعوام سے ہمیشہ یہی سننے کو ملتا تھا کہ: تعداد کی کثرت؛ معیار حق نہیں، حق کے پیچھے چلیں، تعداد کو نہ دیکھیں، کیوں کہ حق پر چلنے والے ہمیشہ قلیل تعداد میں ہی رہے ہیں، ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانے میں اکیلے ہی حق کے ماننے والے تھے، بعض انبیا نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی راہنمائی میں خرچ کر دی مگر ایک شخص نے بھی اسلام قبول نہیں کیا، بعض انبیا کی دعوت پر ایک نے اور بعض کی دعوت پر چند ایک نے اسلام قبول کیا، مگر انہوں نے تعداد کو کبھی خاطر میں نہ لایا. اس کے بالمقابل فرعون اور کفار نے انبیا کو تعداد کی قلت کا طعنہ دیا تھا.
سوشل نیٹ ورک کے دور سے قبل یہی منہج ہم اہل حدیثوں کا یہی منہج تھا، پھر سوشل نیٹ ورکنگ کا دور آیا اور دھیرے دھیرے عوام اپنے علما سے دور اور انٹرنیٹ کی دنیا سے قریب ہوتے گئے، اب ان کے نزدیک سب سے بڑا عالم وہ ٹھہرا جس کی ویڈیوز سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہے، اور سب زیادہ اسے دیکھا جاتا ہے جس کے اندر یہ صفات موجود ہوں:
1: کسی مدرسہ کا فارغ نہ ہو نا ہی کسی مستند عالم سے علم. حاصل کیا ہو. کیوں کہ ڈگری یافتہ اور روایتی مولوی ہے.
2: جو ہر موضوع پر بے جھجک فتویٰ دیا کرے بلکہ بروقت اجتہاد کرنے کی جرات رکھتا ہو.
3: جو اداکاری کے فن سے واقف ہو اور ایکٹنگ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو.
اب یہاں سے اہل حدیث نوجوانوں نے (عوام وخواص) تعداد کے پیچھے بھاگنا شروع کیا، جو جتنا زیادہ مشہور وہ اتنا بڑا عالم، جس کی ویڈیوز پر جتنی کثیر تعداد میں ویوز آئیں وہ اتنا اچھا علم رکھنے والا ٹھہرا.
میرے بھائیو! یہ ہمارا منہج کب سے ہونے لگا کہ جس کے جتنے زیادہ followers ہوں، وہ اتنا بڑا عالم؟
یہ ہمارا منہج کب سے ہونے لگا کہ جس نے کسی استاد سے علم شرعی حاصل نہ کیا ہو، دعوت دینے کا اختیار اسے بھی ہے؟
یہ ہمارا منہج کب سے ہونے لگا کہ: علم شرعی سے ناواقف حضرات سے علم لیا جائے؟
ہمارے منہج کے مطابق تو دعوت دین کیلیے علم شرعی کا ہونا شرط ہے، اور علم شرعی کے حصول کیلیے استاد کا ہونا شرط ہے.
کیا شرط پوری کیے بغیر عمل درست مانا جائے گا؟
وضو؛ نماز کی درستگی کیلیے شرط ہے، کیا بغیر وضو کے نماز درست ہوگی؟
جب وضو کی شرط پوری کیے بغیر نماز درست نہیں تو پھر علم کی شرط پوری کیے بغیر دعوت دین کیوں کر درست ہو سکتا ہے اور استاد کی شرط پوری کیے بغیر علم شرعی کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟
آپ ہی بتائیں کہ یہ کون سا دین کا کام ہے جہاں شرعی طریقہ ہی مفقود ہے؟
یہ کون سا دین کا کام ہے جہاں صرف عمل کرنے کی ہوس ہے، خواہ شرائط کی تکمیل ہوئی ہو یا نہیں؟
کیا یہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے سے بغاوت نہیں ہے؟
کیا یہ نبی اکرم ﷺ کے بنائے ہوئے منہج سے انحراف نہیں ہے؟
بعض حضرات کہتے ہیں کہ: علما دین کا کام نہیں کر رہے ہیں یا اچھے سے نہیں کر رہے ہیں.
میں کہتا ہوں کہ: آپ ایک مہینہ کیلیے موبائل بند کر دیں، مسجد میں جا کر دیکھیں، کیا وہاں علما اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے ہیں؟
آپ مدرسہ میں جا کر دیکھیں، کیا وہاں علما کام نہیں کر رہے ہیں؟
آپ کتب خانوں کا چکر لگائیں، آپ کی جیب خالی کو جائے گی، علما کی محنت سے معرض وجود میں آئی کتابیں ختم نہیں ہونگی.
آپ لائبریری چلے جائیں، عمر ختم ہو جائے گی، مگر علما کی تصانیف کا دسواں حصہ بھی آپ نہیں پڑھ سکتے.
آپ کو اپنے مسائل میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے تو علما کے پاس جاتے ہیں، کسی بدعتی پر رد کیلیے علما سے رابطہ کرتے ہیں، کسی منحرف کے اشکالات کے جوابات کیلیے علما قلم اٹھاتے ہیں، یہودی، نصرانی، کفار، اہل تشیع، منکرینِ حدیث اور دیگر منحرفين پر آئے دن علما کے ردود آتے رہتے ہیں.
الغرض! آپ کی پیدائش سے لے کر موت کے بعد تک علما کی راہنمائی موجود ہوتی ہے، پھر کہتے ہیں کہ علما کام نہیں کر رہے ہیں.
آپ کہیں گے کہ: سوشل میڈیا پر علما کام نہیں کر رہے.
میں کہتا ہوں کہ: علما تو اپنا کام سوشل میڈیا پر بھی کر رہے ہیں، اور میں ایسے بے شمار علما کا نام بتا سکتا ہوں.
مگر اس سے اہم سوال یہ ہے کہ: کیا ذمہ داری بھی علما کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ویڈیوز اپلوڈ کریں؟
آپ نے کیا کیا ہے؟ کیا آپ نے ان علما کو سوشل میڈیا پر پروموٹ کیا؟
کیا آپ نے علما سے رابطہ کر کے ان کے لیکچرز اپلوڈ کر کے اس کی پروموٹنگ کی؟
آپ سے تو کسی عالم کی ایک ویڈیو شیئر نہیں کی جاتی، پھر کہتے ہیں کہ علما کام نہیں کر رہے ہیں.
حقیقت یہ ہے کہ عوام اپنا کام نہیں کر رہی ہے۔ دین علما کے بجائے جہلا سے سیکھ رہے ہیں۔ علما دلائل کے ساتھ بھی بات کریں پھر بھی معتوب ٹھہرتے ہیں۔ جب کبھی علما نے کسی منکر کو دیکھ کر اس پر نکیر کی، آپ نے فورا خدائی فوجدار بن کر ان پر حاسد ہونے کا ٹھپہ لگا دیا۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صر ف چوری ، زناکاری، غیبت، حسد، نماز کا ترک وغیرہ ہی گناہ کے کام ہیں، جبکہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی اللہ کے دین کے بارے میں بلا علم بات کرے (جیسے بردرس حضرات)۔ اکبر الکبائر میں شرک جیسا عظیم گناہ شامل ہے۔ منکرات میں سے عظیم منکر "منہج صحابہ” سے انحراف ہے۔
اہل حدیث تمام منکرات پر شریعت کے دائرے میں رہ کر کھل کر نکیر کرتے ہیں اور عوام کو یہ لگتا ہے کہ عقیدے کے مسائل میں گفتگو کرنا کوئی کام کی چیز ہے ہی نہیں۔ منہج صحابہ سے انحراف کرنے والوں پر رد کرنا دینی کام ہے ہی نہیں۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کس نے اپنا فرض ادا نہیں کیا اور کون ہے جو کام نہیں کر رہا ہے۔