تالیف: فضیلۃ الشیخ ماجد بن سلیمان الرسی حفظہ
ترجمہ: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی
ہر چند کہ شریعت میں قبولیتِ دعا کے اسباب بیان کردئے گئے ہیں، پھر بھی اس سلسلے میں لوگ تین گروہ میں بٹے ہوئے ہیں: ایک گروہ وہ ہے جو قبر وں میں مدفون صالحین اور اولیا کو پکارتا ہے اور یہ گمان رکھتا ہے کہ ان کی دعا قبولیت کے قریب ہے، جب کہ ایسا کرنا بغیر کسی شک وشبہ کے غلط ہے، اس کی تین وجوہات ہیں:
پہلی وجہ :غیر اللہ کو پکارنا شرکِ اکبر ہے جو انسان کو ملتِ اسلامیہ سےخارج کر دیتا ہے، کیوں کہ دعا عبادت ہے، اور تمام طرح کی عبادتیں صرف اللہ کے لیے انجام دی جا سکتی ہیں، چنانچہ جس نے غیر اللہ کے لیے کوئی عبادت انجام دیا تو اس نے شرک کیا ۔
دوسری وجہ: مردہ حضرات پکارنے والوں کی پکار نہیں سنتے۔
تیسری وجہ: مردوں کو یہ تصرف اور قدرت حاصل نہیں کہ وہ اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں ، چہ جائیکہ دوسروں کے کام آئیں، اسی وجہ سے انہیں پکارنا اور ان سے حاجت طلبی کرنا حد درجہ حماقت اور نہایت باطل وبے بنیاد عمل ہے۔
لوگوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ تعالی سےدعا کرتا ہے اورقبولیت کے وہ مقامات اختیار کرتا ہے جن کا ذکر قرآن وسنت میں آیا ہے تاکہ ان کی دعا شرفِ قبولیت سے سرفراز ہوسکے، جیسے رات کی آخری تہائی میں دعا کرنا، سجدہ کی حالت میں دعا کرنا ، عرفہ کے دن دعا کرنااور ان جیسے قبولیت کے دیگر مقامات ۔یہی وہ لوگ ہیں جو شریعت پر قائم ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار ہیں، اللہ ہمیں بھی ان میں شامل فرمائے۔
تیسرا گرو ہ وہ ہے جو صرف اللہ تعالی سے ہی دعا کرتا ہے، اس کے سوا کسی کو نہیں پکارتا، لیکن یہ لوگ قبولیت دعا کے لیے بعض ایسے مقامات اختیار کرتے ہیں جن کا ذکر شریعت میں نہیں آیا ہے، بلکہ شریعت نے ایسی جگہوں پر دعا کرنے سے منع فرمایا ہے، جیسے قبروں پر جاکر قبولیت کی نیت سے دعا کرنا ، خواہ انبیا وصالحین کی قبریں ہوں یا کسی اور کی ، ایسا عقیدہ رکھنے والا قبر کے پاس جاکر دعا کرتاہے کہ: اے پروردگار ! مجھے اولاد سے نواز، میرا قرض چکا دے….وغیرہ۔
اس مختصر مقالہ کے اندر میں نے تیسرے گروہ کے عقیدہ کا جائزہ لیا ہے او رمختلف ناحیے سے ان کی غلطی واضح کی ہے، نیز ا س کا شرعی متبادل بھی پیش کیا ہے۔