دوسری قسط
کسی شاعر نےکہا تھا: بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی. اور اب تو بات نکل چکی ہے، اب بقول بعض "صرف منہجی لاٹھی چلے گی” اور اب وقت آگیا ہے کہ اہل حدیث کا لیبل لگا کر منہج مخالف کام کرنے والوں کو نصیحت کریں کہ دعوت صرف منہج سلف کے مطابق دی جائے.
میں بڑے عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ سلفی ہونے کا دم بھی بھرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ نعرہ بھی لگاتے ہیں کہ: سب کو ساتھ ملا کر چلنا ہے.
آپ جانتے ہیں کہ اس نعرہ کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب آپ کے ساتھ ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سب کے ساتھ ہیں.
اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ ہو کر حق قبول کر لیں گے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو حق سے نیچے اتار کر اپنے راستے پر کر لیں گے.
اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنا باطل نظریہ ترک کر دیں گے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو آپ کے سچے عقیدہ سے منحرف کر دیں گے.
اس کا مطلب یہ ہوا کہ: آپ امر بالمعروف (بھلائی کا حکم دینا) کا کام تو کر سکتے ہیں، مگر نھی عن المنکر (برائی سے روکنا) ممنوع ہے.
اور
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے باطل پر ڈٹے رہیں گے، مگر آپ کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے.
یہ کیسا "ساتھ چلنا ہے”، جہاں "حق” کو باطل کے سامنے جھکنا پڑے اور راہ حق سے آپ کو انحراف کرنا پڑے؟
یہ کیسا اتحاد ہے جہاں باطل پروان چڑھ رہا ہے اور حق کا گلا گھونٹا جا رہا ہے؟
یہ کیسا اتحاد ہے جہاں دعوت کی ایک اہم شق؛ نھی عن المنكر پر پابندی ہے؟
جانتے ہیں قومیں کیوں ہلاک کی گئیں؟؟
کیوں کہ انہوں بھی نھی عن المنکر کا کام چھوڑ دیا تھا، برائی سے منع کرنا ترک کر دیا تھا، اور "ایک ساتھ مل کر چلنے” کا بنیادی اصول یہی ہے کہ آپ کسی پر نکیر نہ کریں.
اس اصول کی بنیاد پر:
آپ شرک پر نکیر نہیں کر سکتے کیوں کہ بریلوی طبقہ کو اس سے تکلیف ہوتی ہے.
آپ بدعی عقائد پر رد نہیں کر سکتے، کیوں دیوبندی جماعت کو اس سے تکلیف ہوتی ہے.
آپ کسی عام بدعت پر بھی رد نہیں کر سکتے، کیوں اہل تصوف کو اس سے دکھ پہنچتا ہے.
آپ ابو بکر وعمر کے فضائل بیان نہیں کر سکتے، آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت پر زبان نہیں کھول سکتے، آپ صحابہ کرام کے حق میں اچھے الفاظ نہیں بول سکتے، کیوں کہ اس اہل تشیع، مودودی کے پیروکاروں اور ان کے ہم مثل دوسرے لوگوں کو رنج پہنچتا ہے.
پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ: اپنے بیانات میں میوزک بھی لگائیں، کیوں کہ نئی نسل کو یہی پسند ہے، دھن کوئی مؤثر سی لائیں کیوں کہ اس سے نوجوانوں کے دلوں پر اثر پڑتا ہے.
سبحان اللہ العظيم!!!
جب شرک پر نکیر نہیں کر سکتے، جب بدعات پر رد نہیں کر سکتے، جب صحابہ کے فضائل بیان نہیں کر سکتے، جب صحابہ کرام کے خلاف بھونکنے والوں کے خلاف بول نہیں سکتے، نیز ان سب کے علاوہ جب نوجوانوں کو خوش کرنے کیلیے میوزک حلال کر کے اپنے بیانات میں شامل کر ہی لیا گیا.
تو بتائیں!!!
دین بچا ہی کیا ہے اب؟؟؟ صرف زنا، چوری، بے حیائی، پردہ اور داڑھی کی حد تک؟؟؟
چلیں!!! پھر ایک دو سیڑھیاں اور نیچے اتر جائیں:
شیعہ مذہب سے متعہ لے کر "حلال زنا” بھی بنا لیں.
صوفیا کے مذہب سے قوالی جیسی چیزیں لے کر "حلال میوزک” بھی بنا لیں.
اور
"حلال شرک” تو پہلے سے ہی موجود ہے، بس اس آگ میں ذرا سا تیل چھڑک دیں.
پھر "دین کو حلال” کریں اور نئی نسل کے مطابق نیا دین لاؤنچ کریں.
شریک غم: علیم الدین یوسف