نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغے کو گالی دینے سے منع فرمایا کیوں کہ وہ لوگوں کو نماز کیلئے جگاتا ہے، فرمایا: لا تسبوا الديك؛ فإنه يوقظ للصلاة (سنن ابو داود: ح۵۱۰۱، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے).
پھر جو شخص لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہو، نماز، اذان، قرآن، توحید اور دیگر امورِ خیر کی تعلیم دیتا ہو اسے گالی دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
اور پھر ایسے وارثین انبیاء کو مارنا، ان پر تہمت لگانا، انہیں ذلیل کرنا تو ظلمات بعضہا فوق بعض کی منہ بولتی تصویر ہے.
جب ایک معمولی جانور کو اس کی ایک نیکی کے عوض گالی دینے سے منع کیا گیا تو پھر ایک ایسے انسان کو جس کیلئے زمین وآسمان حتی کے سمندر کے اندر رہنے والی تمام مخلوقات ہمہ وقت مغفرت طلب کرتی ہیں، جن کیلئے فرشتے پر بچھاتے ہیں، جنہیں اللہ رب العالمین نے اپنی وحدانیت پر گواہ بنایا ہے، جنہیں تمام انبیاء کرام کا وارث قرار دیا گیا ہے انہیں گالی دینا، مارنا، پیٹنا اور ان پر تہمتیں لگانا کس قدر سنگین امر ہوگا؟
ایسے شر پسند عناصر کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے اور رب کے سامنے جواب دہی کا خوف کرنا چاہیے.
اور رہی بات علما کرام کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات کو ان کیلئے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن جو لوگ عالم نہیں ہیں بلکہ علما کرام کے دشمن ہیں ان کیلئے کتنی مخلوقات مغفرت طلب کر رہی ہیں اس پر انہیں غور کرنا چاہئے؟
محترم قارئین: علما کرام کا احترام اور ان کی عزت و توقیر کرنا نیکی ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے، اور اس نیکی کی توفیق اللہ رب العالمین ہر کسی کو نہیں دیتا، اگر آپ کو توفیق ملی ہوئی ہے تو اپنے رب کا شکریہ ادا کریں، اور اگر آپ کو اب تک اس نیکی کی توفیق نہیں ملی ہے تو اپنا محاسبہ کریں کہ اب تک آپ کو اس نیکی کو انجام دینے کی توفیق کیوں نہیں ملی؟
واللہ اعلم بالصواب
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ